پاکستان کا دفاع اور اسلامی جمعیت طلبہ
وطن کس کو کہتے ہیں؟ یہ بڑا آسان سوال ہے مگر اس کا جواب اتنا ہی گہرا اور جامع ہے ۔ وطن صرف زمین کے ٹکرے کا نام نہیں ہے ۔ وطن چند حدود کے اندر پائی جانے والی چیز کو بھی نہیں کہتے ۔ تو پھر وطن ہے کیا؟ اس کا جواب اقبال نے کچھ یوں دیا ہے
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو اس کا پیرہن ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اس شعر کو سمجھنے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ وطن کی تعریف بیان کی جائے۔ وطن اس خطعہ ارض کو کہتے ہیں جہاں انسان اپنے نظریات اور اپنے مذہب کی پیروی بغیر کسی روک تھام کے کر سکے ۔ یہ وہ تعریف ہے جس کو آپ عام الفاظ سے بیان کرسکتے ہیں ۔لیکن میں یہ تحریر جس وطن کے بارے میں لکھ رہا ہوں وہ وطن ریاستِ مدینہ کے بعد خطعہ ارض پر اسلام کی وہ واحد ریاست ہے جو لاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ﷺ کے نظریے پر بنی ہے اس لیے میں اس وطن کو اس شعر سے تشبیہ نہیں دے رہا ہوں۔اس وطن کو حاصل کرنے میں ہمارے بڑوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں لیکن اس وطن کی تعمیر اور اس کی تعمیر کے بعد تحفظ میں اس طلبہ کا بہت زیادہ کردار رہا ہے۔ اس وطن عزیز کو دنیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جانتی ہے جوکہ امت مسلمہ کی بہترین قوت ہے۔
مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن جوکہ پاکستان بننے سے پہلے برصغیر کے مسلمان طلبہ نے بنائی تھی اس کا مقصد پاکستان کا قیام تھا اور اس مقصد کو پورا کرنے کےلیے ان طلبہ نے بہت سی عظیم قربانیاں دی ہیں۔لیکن جب پاکستان کا قیام وجود میں آگیا تو ان طلبہ کا کام ختم ہو چکا کو قائد کو یہ الفاظ کہنے پڑے کہ میری جیب میں کھوٹے سکّے آئیں ہیں۔ اس بیان کو سنتے ہی پاکستان کے مختلف علاقوں میں طلبہ تلملا اٹھے اور اسی کے نتیجے میں بہت سی طلبہ تنظیموں کا قیام عمل میں آیا
۔اسلامی جمعیت طلبہ(اسلامی چھاترو چھنگو)اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ انجمن طلبہ اسلام ،المحمدیہ سٹوڈنٹس اور مسلم سٹوڈنٹس یونین جیسی تنظیمیں سامنے آئیں ۔لیکن نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان کی محافظ تنظیم جس نے ہر مشکل وقت میں اس ملک کے لیے اپنا لہو پیش کیا اس تنظیم کی قربانیوں کو کون پسِ پشت ڈال سکتا ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ جس نے نہ صرف علمی اور نظریاتی محاذ میں اس ملک کا دفاع کیا بلکہ پاک فوج کے شانہ بشانہ سرحدوں میں بھی اس ملک کے لیے اپنا خون بہایا۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے سب سے پہلے اس ملک کے نظریات کادفاع کیا جب قادیانی اس ملک میں اسلام کے خلاف اپنے کام کو فروغ دے رہے تھے تو تب اسی تنظیم نے پاکستان کا اصل نظریہ جوکہ نظریہ اسلام ہے کے دفاع کی تحریک اس طرز پر چلائی کہ قادیانیوں کو اس ملک کے آئین میں کافر قرار دیا گیا ۔
اس تحریک کے دوران اس تنظیم کے بہت سے کارکنوں نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔ جب سقوطِ ڈھاکہ ہوا تو بنگال کے اندر پاک فوج کے ہمراہ اس تنظیم نے ملک سے وفاداری کی وہ عظیم مثالیں قائم کیں کہ جن بیان کرتے ہوئے ہر آنکھ اشک بار ہوتی ہے۔عبدلمالک شہید جس کو تندور کی گرم آگ کے اپر لٹکایا گیا تب بھی اس مردِ مجاہد نے ایک ہی نعرہ لگایا "پاکستان زندہ باد" البدر اور الشمس کے شہداء جوکہ اس تنظیم کے کارکن تھے انہوں نے اس ملک کے دفاع کی خاطر کوئی کسر نہ چھوڑی۔
بنگال کے اعلیحدہ ہونے کے چھ ماہ تک بھی اس تنظیم کے کارکنوں نے ڑھاکہ یونیورسٹی سے پاکستان کا پرچم اترنے نہ دیا اور آج بھی ان عظیم لوگوں کو بنگلہ دیش میں پھانسیاں دی جارہی ہیں۔ وجہ صرف اتنی کہ پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں۔ جب روس کے سرخے اس ملک کی طرف بڑھے اور سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے کا نعرہ لگایا تو اس عظیم تحریک نے پاکستان کے نظریات کا دفاع دفاع کرتے ہوئے"سبز ہے سبز ہے ایشیا سبز ہے" کا نعرہ دیا اور روس کے سرخوں کو اس ملک سے مار بھگایا۔ آج بھی یہ تنظیم کشمیر کے اندر کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے ۔
اس کے علاوہ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کےطلبہ کے ہنر کو کو نکھارتی ہے اور اس ملک کے طلبہ کی کردار سازی کرتی ہے اور اسلامی نظریات کے اوپر تربیت کرتی ہے اور ہر طالب عل کو حب الوطنی کے جذبے سے شرسار کرتی ہے ۔ اس تنظیم کے اندر ہر مسلک اور مکتبہ فکر کے طلبہ موجود ہیں جو صرف اللّٰہ کی رضا کی بات کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ المحمدیہ سٹوڈنس کا کردار بھی نظریہ پاکستان کے حوالے سے بہت اہم رہا ہے لیکن بات پھر سے وہی ہے کہ المحمدیہ کو بنانے والا شخص بھی اسلامی جمعیت طلبہ کی تربیت سے گزرا ہوا ہے۔
باقی تنظیمیں علاقائی سطح پر اس ملک کے دفاع میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں
انشاء اللّٰہ آئندہ بھی پاکستان کے طلبہ اپنے ملک و قوم کے دفاع و استحکام میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
رانا عدنان ولی
رکن اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان